(Nepotism in Pakistan) اقرباپروری / طرف داری

(What Is Nepotism) / اقرباپروری کیا ہے ؟

اقربا پروری خرابی اور بدعنوانی کی سب سے بد ترین شکل ہے جس میں اپنی طاقت کا غلط اور ناجائز استعمال کرکے اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان کے لوگوں کو بہترین جگہ دینا جبکہ وہ اس قابل نہ ہوں۔ کیا صرف زاتی رابطوں اور تعلقات کی بنیاد پرکسی کا انتخاب کرنا غیر منصفانہ اور بلا جواز نہیں ہے؟ جب ایمانداری ، وفاداری ، محنت اور خدمات کے باوجود کسی کو ترقی کے لئے منتخب نہیں کیا جاتا تو اسکی نیکی اور محنت کا کیا صلہ ملے گا ؟کیا رشتہ داری ایمانداری اور میرٹ سے بہتر ہے ؟ 
nepotism

(Nepotism In Pakistan) / پاکستان میں اقرباپروری

اگر کوئی پاکستان کی بات کرے تو یہ اقرباپروری  کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے مختلف جگہوں میں دیکھا جاتا ہے کہ  خاندان کے کئی افراد ایک ہی جگہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ عام طور پر سیاست ، کرکٹ ،تفریح یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں بھی رواج پایا جاتا ہے ۔ جبکہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے جو نظریہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام لیا۔ لیکن بدقسمتی سے ، پاکستان میں لوگوں کو مساوی حقوق نہیں دیئے جاتے ہیں۔

favouritism

 اگرچہ اسلام میں اقربا پروری کی سختی سے ممانعت ہے۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے 
اے ایمان والوں انصاف کے لئے مضبوط ہو ، اللہ کے گواہ بن کر  ، خواہ یہ تمہارے ، تمہارے والدین کے ، اور رشتہ داروں کے خلاف ہو ، یا یہ امیروں کے یا غریبوں کے 
 پاکستان کی آزادی کے بعد سے ہے لوگ اقرباپروری کا شکار رہے ہیں جہاں ایک طاقت ور شخص کا رشتہ دار فائدہ اٹھا کر چڑھ جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال پاکستان  کے سابق گورنر سکندر مرزا ہیں جو ایک وقت کے گورنر رہے ہیں انکے دور میں  انہوں نے3 سالوں میں 5 وزرائے اعظم برخاست کئیے اور وزیر اعظم لفظ کو ایک مزاق بنا دیا جو ہمارے ملک کی جمہوریت کے لئے بے حد شرمناک تھا ۔ جس پر اس دور کے بھارتی وزیرِ اعظم نہرو نے طنزیہ تبصرہ کیا تھا کہ 
میں دھتی کو اتنی تیزی سے تبدیل نہیں کرتا جتنی تیزی سے پاکستان وزیرِ اعظم بدلتا ہے۔

nepotism


بدقسمتی سے ، یہاں تک کہ ہمارے تعلیمی ادارے بھی اقربا پروری اور حق پسندی کی اس مہلک بیماری سے پاک نہیں ہیں۔ تعلیم کسی بھی ملک کی  ترقی کا واحد ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ مگر یہ رواج ہماری تعلیم کو بھی متاثر کر رہا ہے ۔ جامعات میں یہ عام رواج ہے کہ بااثر افراد اپنے عزیزواقارب کو خالی آسامیاں دے رہے ہیں یا خاص نشستیں مخصوص کر لی ہیں ۔
یہ نظام اتنا کرپٹ ہو چکا ہے کہ پڑھے لکھے ہنرمند نوجوانوں نے اپنے آپ کو مجرمانہ سرگرمیوں میں مصروف کردیا ہے اور اپنا مستقبل برباد کردیا ہے۔

bad habbits

تو اس نظام کو بدلنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟  یہ ہماری  ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا حصہ خلوصِ نیت سے ادا کریں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنائےاور نوجوانوں کو پیچھے گھسیٹنے کی جگہ انکو صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کا موقع فراہم کریں اور ملک کی ترقی اور استحکام کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ 
 

Post a Comment

0 Comments